بہار انتخابات 2025 کی تمام خبروں کے لئے ہم سے جڑیں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سیاسی پہلو- وصی حسن

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سیاسی پہلو-وصی حسن

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا سیاسی پہلو ایک مکمل انقلاب اور حکمتِ عملی کا بے مثال نمونہ ہے۔ آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز نبوت کے اعلان کے ساتھ ہی ہوتا ہے، جو مکہ مکرمہ میں ایک پُرامن دعوت سے شروع ہو کر مدینہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست کے قیام پر منتج ہوا۔

مکہ کا پُرامن دور (13 سال)

ابتدا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی توجہ انفرادی اصلاح اور عقائد کی درستی پر مرکوز رکھی۔ یہ دور ایک پُرامن سیاسی حکمتِ عملی کا مظہر ہے، جہاں طاقت کے بجائے دلائل اور اخلاقی برتری کے ذریعے سیاسی ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ دراصل مستقبل کی اسلامی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا زمانہ تھا۔
قریش کے شدید ظلم و ستم اور بائیکاٹ کے باوجود، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے ثابت قدمی دکھائی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کا مقصد محض ایک قبیلہ نہیں بلکہ ایک آفاقی نظامِ حیات قائم کرنا تھا۔

مدینہ کا ریاستی دور (10 سال

ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک مثالی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ یہ دور آپ کی سیاسی قیادت اور بصیرت کا عروج تھا۔

میثاقِ مدینہ (پہلا آئین

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے تمام گروہوں — مسلمانوں، یہودیوں اور مشرکین — کے درمیان ایک تحریری معاہدہ "میثاقِ مدینہ" مرتب کیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کا پہلا تحریری آئین تھا، جس نے مختلف مذہبی اور نسلی اکائیوں کو ایک سیاسی و معاشرتی نظام کے تحت متحد کیا۔
یہ معاہدہ مذہبی آزادی، شہری حقوق اور بیرونی حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع کی ضمانت دیتا تھا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کثیر النسلی معاشرے میں امن، رواداری اور باہمی احترام کی بنیاد رکھی۔

معیشت اور عدل

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو ختم کر کے اور زکوٰۃ کا نظام قائم کر کے ایک ایسا معاشی نظام رائج کیا جو امیر اور غریب کے درمیان توازن پیدا کرے۔ آپ خود ریاست کے قاضی اور منصف تھے اور عدل و انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں فرماتے تھے۔

دفاع اور خارجہ تعلقات

ریاست کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مؤثر دفاعی حکمتِ عملی اپنائی۔ غزوات اور سرایا کا مقصد محض جنگ نہیں بلکہ ریاست کی بقا اور ظلم کے خاتمے کے لیے تھا۔
صلح حدیبیہ آپ کی ایک غیر معمولی سیاسی کامیابی تھی، جس نے جنگ کے بجائے صلح اور تدبر کے ذریعے فتح کا راستہ ہموار کیا اور کئی سال کے لیے امن قائم کر دیا۔

عالمگیر دعوت اور حکمرانی

صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے مختلف بادشاہوں اور سربراہانِ مملکت کو خطوط ارسال کیے، جن میں انہیں اسلام کی دعوت دی گئی۔ یہ بین الاقوامی روابط اور حکمتِ عملی کا آغاز تھا۔
فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت اور عظمتِ کردار کا ایک بے نظیر مظاہرہ تھا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

آخر میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی محض حکومت کرنا نہیں تھی بلکہ عدل، مساوات، رواداری اور اخلاقیات پر مبنی ایک ایسا نظامِ حیات قائم کرنا تھی جو انسان کو اللہ کے قانون کا پابند بنا دے۔
آپ ایک نبی بھی تھے، ایک سربراہِ مملکت بھی، ایک سپہ سالار بھی اور ایک منصف بھی۔ آپ کی سیاست دراصل "سیاستِ مدنیہ" کہی جا سکتی ہے، جو طاقت کے بجائے رحمت، انصاف اور حکمت پر مبنی تھی۔
یہ ایک ایسی جامع سیاسی قیادت تھی جس نے تاریخ کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے