تازہ ترین خبریں و مضامین کے لئے ہم سے جڑیں۔ شکریہ

یہ ہے مہاگٹھ بندھن… بلکہ ٹھگ بندھن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

یہ ہے مہاگٹھ بندھن… بلکہ ٹھگ بندھن کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ 

 اِن لوگوں کی ہار طے تھی، کیونکہ اِنہیں شکست دینے کے لئے کسی مضبوط مخالف کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ان کے اپنے اندرونی جھگڑے، غلط فیصلے، بےترتیبی اور باہمی بدگمانی ہی ان کے ڈوبنے کے لئے کافی تھے۔
بہار کے ۲۰۲۵کے اسمبلی انتخابات نے صاف دکھا دیا کہ ان کی ہار کا اصل سبب کوئی دوسرا نہیں بلکہ وہ خود تھے۔

 اوپر سے اتحاد مضبوط اور یکجہت دکھ رہا تھا، مگر زمین پر حالت یکسر مختلف تھی۔

کم و بیش پندرہ حلقوں میں مہاگٹھ بندھن کی ہی جماعتیں؛وی آئی پی، کانگریس اور آر جے ڈی آپس میں بھڑ گئیں۔ کہیں وی آئی پی نے کانگریس کے سامنے امیدوار کھڑے کر دیئے، کہیں کانگریس نے آر جے ڈی کو للکار دیا، اور کئی جگہ آر جے ڈی نے کانگریس کا راستہ کاٹ دیا۔ جب ایک ہی اتحاد کے ساتھی ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتریں تو شکست یقینی ہو جاتی ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ مخالف اتحاد کو ملا اور وہ کئی نشستوں پر آرام سے کامیاب ہوگیا۔

اسی دوران جن سوراج نامی نئی جماعت نے بھی بڑا داؤ لگایا۔ اس نے ۲۳۸ حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔ اگرچہ وہ ایک بھی نشست نہ جیت سکی، مگر اتنی بڑی تعداد میں میدان میں اُترنے سے مقابلہ یکطرفہ نہیں رہا بلکہ تین طرفہ ہوگیا۔ اس سے مہاگٹھ بندھن کا ووٹ کئی جگہوں پر بری طرح بٹ گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ فائدہ مخالف اتحاد کے حصے میں گیا۔
کئی جانکار اس صورتِ حال کو ۲۰۲۰کے واقعے سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں، جب ایک دوسری جماعت نے ووٹ کاٹ کر پورے انتخاب کا نقشہ بدل دیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت نقصان دوسرے اتحاد کو ہوا تھا، مگر ۲۰۲۵ میں وہی زخم مہاگٹھ بندھن کو لگا، اور یہ اتحاد چند گنی چنی نشستوں تک سمٹ کر رہ گیا۔

ان کی شکست کی وجہ صرف نئی جماعتوں کی موجودگی یا مخالف اتحاد کی چال نہیں تھی، بلکہ اصل دکھ ٹکٹوں کی غلط تقسیم، لیڈروں کے درمیان بداعتمادی اور کمزور تال میل تھا۔ جب ساتھی ہی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوں تو جیت کی امید کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
اس انتخاب نے صاف بتا دیا کہ مہاگٹھ بندھن کی سب سے بڑی رکاوٹ دشمن نہیں، بلکہ اس کی اپنی اندرونی کمزوریاں ہیں جنہوں نے ووٹ بٹوارا بڑھا کر کئی حلقوں میں نتائج پلٹ دیے۔

دو ہزار پچیس کا یہ انتخاب مہاگٹھ بندھن کے لئے ایک سخت سبق ہے۔ اگر آئندہ اتحاد، نظم و ضبط اور صاف حکمتِ عملی نہ ہوئی، تو آنے والے انتخابات میں کامیابی ان کے لئے مزید مشکل ہوتی جائے گی۔

  تحریر:اسجد راہی ٹیڑھاگاچھ                      

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے