بہار کی سیاست — ایک تلخ حقیقت
علی سہراب کاکاوانی
1990سے ے پہلے بہار میں ووٹنگ بوتھ ہمیشہ اعلیٰ ذاتوں کے محلوں میں لگتا تھا۔
جب دلت بستیوں کے لوگ ووٹ ڈالنے جاتے، تو اعلیٰ ذات کے لوگ ایک دو
فائرنگ کر دیتے،
اور فائرنگ کی آواز سنتے ہی سب ووٹر بھاگ جاتے۔
لالو پرساد یادو نے چاہے بہار میں کوئی بڑا ترقیاتی کام نہ کیا مگر
اس صدیوں پرانے سماجی غلبے کو توڑ ڈالا۔
اسی دن سے پچھڑی ذاتوں کو
محسوس ہوا کہ لالو واقعی ان ہی کے درمیان سے نکلا ایک لیڈر ہے۔
کانگریس کے دورِ حکومت میں
بھاگلپور کے مسلم مخالف فسادات کے دوران
مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ یادو طبقہ ہی کھڑا تھا،ایم
وائی
مگر لالو یادو نے فارمولایعنی مسلم اور یادو اتحاد — قائم کیا،
اور بہار میں فسادات کا سلسلہ ختم کر دیا۔
لالو نے نہ صرف مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی، بلکہ ان کے خلاف
کوئی تلخ لفظ تک زبان سے نہ نکالا۔
اسی محبت اور اتحاد کے سہارے لالو نے پورے پندرہ برس تک بہار پر
حکومت کی۔
جب نتیش کمار کی حکومت آئی،
تو ابتدا میں مسلمانوں نے زیادہ حمایت نہیں دی،
لیکن وقت کے ساتھ ان کا اعتماد بڑھا،
اور بڑی تعداد میں مسلمانوں نے نتیش کو ووٹ دینا شروع کر دیا۔
لیکن راجد پھر بھی مسلمانوں کی پہلی پسند بنی رہی۔
جب راجد کی باگ ڈور تیجسوی یادو کے ہاتھوں میں آئی،
تو اس نے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔
تیجسوی کو گمان تھا کہ مسلمانوں کے پاس راجد
کے سوا کوئی متبادل نہیں بچا۔
اسی زعم میں اس نے
عبدالباری صدیقی اور محمد شہاب الدین جیسے مسلم چہروں کو کنارے کر
دیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ
مسلمان آہستہ آہستہ راجد سے دور ہوتے چلے گئے۔
گزشتہ انتخابات میں
نتیش کمار مسلمانوں کے ووٹوں کے دم پر ہی وزیراعلیٰ بن پائے،
ورنہ مودی کا ہنومان نتیش کی سیاست کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہ
چھوڑتا۔
اسی دوران بہار میں بہار میں اےآئی ایم آئی ایم
اپنے پہلے ہی الیکشن میں پانچ ایم ایل اے جیت کر ایک نئی سیاسی ہلچل
پیدا کر دی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب تیجسوی کو حقیقی خطرہ محسوس ہونے لگا۔
اسی خوف میں اس نے ایم آئی ایم کے چار ایم ایل ایز کو راجد میں شامل
کرا لیا۔
ورنہ سوچئے،
کوئی ایم ایل اے حزبِ اختلاف میں جائے گا یا اقتدار والے کیمپ میں؟
خیر،اب تیجسوی کو مجبوراً مسلمانوں کو دوبارہ اہمیت دینی پڑی
ایم آئی ایم میں جانے کے خدشے سے شہاب
الدین خاندان کے
اس نے فوراً شہاب الدین کے بیٹے (اوسامہ شہاب) کو
راجد میں شامل کر کے ٹکٹ دے
دیا۔
اوسامہ شہاب رگھوناتھ پور سے الیکشن لڑرہے ہیں۔
اور جیت کے مضبوط دعویدار مانے
جا رہے ہیں۔
ایم
آئی ایم نے سیوان سمیت کئی سیٹوں پر امیدوار اتارے، دوسری
جانب
جس سے راجد کے ووٹ فیصد پر اثر پڑتا نظر آ رہا ہے۔
ووٹ کی سیاست کے لحاظ سے دیکھا جائے تو تیجسوی کو بی جے پی
سے زیادہ خطرہ
ایم آئی ایم سے خطرہ ہے۔
اسی وجہ سے مسلمانوں کو ترجیح دینا
اب اس کے لیے مجبوری بن چکا ہے۔
اسی بوکھلاہٹ میں
وہ براہِ راست اسدالدین اویسی
پر حملہ آور نظر آتا ہے۔
سیاسی حملہ کیجئے — مگر سیاسی انداز میں۔
یہ اترپردیش نہیں، بہار ہے،
کہہ کر ووٹ نہیں ملتے بی جے پی جیت جائے گی
بلکہ ترجیح اور عزت دینی پڑتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ
بہار میں تو یوگی جیسا شخص بھی
اپنا ایجنڈا بدلنے پر مجبور ہو گیا۔
اور اب وہاں صرف “ترقی، ترقی” کی بات کرتا ہے۔
خیر راجد کی حکومت بننے پر
تیجسوی وزیراعلیٰ اور مکیش سہنی نائب وزیراعلیٰ ہوں گے،
تو مسلمانوں نے سوال اٹھایا۔ “مسلمانوں کا کیا؟”
اسی موقع پر مجلس نے بھی یہ کارڈ خوب کھیلا،
اور نتیجہ یہ نکلا کہ تیجسوی کو اعلان کرنا پڑاکہ
ایک مسلم نائب وزیراعلیٰ بھی ہوگا، نام بعد میں بتایا جائے گا۔
لیکن اس بیان سے مکیش سہنی برافروختہ ہو گیا۔
جب اس سے پوچھا گیا کہ مسلمانوں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟ تو ہنستے ہوئے
بولا
میرے پاس سنیما کا نہیں، اسمبلی کا ٹکٹ ہے۔
ایک طرف مکیش سہنی کا دباؤ، دوسری طرف مسلمانوں کو ترجیح دینے کی
مجبوری
تیجسوی بری طرح دباؤ میں ہے۔
مگر اسے سمجھنا ہوگا کہ مکیش سہنی کا کیا ہے
جہاں وزارت ملےگا، وہیں چلا جائے گا۔
مسلمان آج بھی راجد کو ووٹ دیتے ہیں،
مگر غلام نہیں ہیں۔
اس لیے تیجسوی کو چاہیے کہ اپنے والد لالو یادو سے ہی کچھ سبق سیکھے۔
بہار میں شراب پر پابندی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ دھتورا کھا
کر
بکواس شروع کر دی جائے۔
0 تبصرے