بہار انتخابات 2025 کی تمام خبروں کے لئے ہم سے جڑیں

بہار کی سیاست میں مجلس کی بڑھتی اہمیت: سیکولر خوابوں کا ناگزیر محور

بہار کی سیاست میں مجلس کی بڑھتی اہمیت: سیکولر خوابوں کا ناگزیر محور

بہار کی سیاست میں سیکولر محاذ کی بقا اور کامیابی ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی ہے۔

روایتی سیکولر جماعتوں کے لیے اب یہ تسلیم کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کو محض ایک وقتی رجحان یا ’’ووٹ کٹوا‘‘ قرار دے کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔موجودہ سیاسی فضا، ووٹر کی بدلتی ترجیحات اور سیکولر جماعتوں کی مسلسل غلط حکمت عملی اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مجلس کے بغیر بہار میں سیکولر سیاست کا کوئی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

مجلس: نوجوان ووٹر کی ابھرتی ہوئی طاقت

سیاسی کامیابی کا انحصار مستقبل کے ووٹر بیس پر ہوتا ہے، اور یہی وہ میدان ہے جہاں مجلس کو واضح برتری حاصل ہے۔

نوجوان قیادت کا کرشمہ

مجلس کا سب سے بڑا سہارا نوجوان نسل ہے۔ اس کا ووٹر طبقہ عموماً 18 سے 25 برس کی عمر کے درمیان ہے — ایک ایسا طبقہ جو روایتی سیاسی جمود سے آزاد، باشعور، پُرجوش اور سوال کرنے والا ہے۔ یہ نوجوان اب صرف خوف کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے حقوق کی حقیقی نمائندگی کے لیے ووٹ دینا چاہتے ہیں۔

ڈیموگرافی کا فرق

جہاں روایتی سیکولر جماعتوں کے پرانے ووٹر (جو ان کی بنیاد تھے) وقت کے ساتھ کم ہو رہے ہیں، وہیں مجلس کے پاس نوجوان ووٹروں کی ایک بڑھتی ہوئی نئی صف موجود ہے جو ہر انتخابی مرحلے میں ووٹر فہرست میں شامل ہو رہی ہے۔

نتیجہ خیز تجزیہ
مجلس کے ووٹروں میں معمولی اتار چڑھاؤ کے باوجود نئے ووٹروں کا تیزی سے جڑنا اس بات کا ثبوت ہے کہ زمینی سطح پر اس کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ ٹکٹ کی بڑھتی مانگ اور کارکنان کی متحرک موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ عوام اسے مستقبل کی سیاسی قوت مان چکے ہیں۔

سیکولر جماعتوں کی ’’ووٹ کٹوا‘‘ والی غلط حکمتِ عملی

روایتی سیکولر جماعتوں نے مجلس کو کمزور کرنے کے لیے اسے بی جے پی کی ’’بی ٹیم‘‘ یا ’’ووٹ کٹوا‘‘ قرار دینے کی جو پالیسی اپنائی، وہ خود انہی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔

ووٹ کٹ نہیں رہے، منتقل ہو رہے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ ووٹ تقسیم نہیں ہو رہے بلکہ ایک پرانی، کمزور اور غیر مؤثر نمائندگی سے ایک نئی، توانا اور نڈر قیادت کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ بار بار ’’ووٹ کٹوا‘‘ کا الزام لگانے سے وہ ووٹر جو مایوسی کے عالم میں مجلس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، مزید بدظن ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیکولر جماعتیں ان کے سیاسی اختیار کو تسلیم نہیں کر رہیں۔

بنیادی مسائل کو نظرانداز کرنا
سیکولر پارٹیاں خوف کی سیاست پر انحصار کرتی ہیں — یعنی ’’اگر آپ نے ہمیں ووٹ نہ دیا تو بی جے پی آ جائے گی‘‘۔ اس کے برعکس مجلس اپنے علاقوں میں تعلیم، روزگار، ترقی اور بنیادی سہولیات کی بات کرتی ہے۔ آج کا نوجوان ووٹر خوف سے نہیں بلکہ امید سے متاثر ہوتا ہے۔

نمائندگی کی مانگ
اب عوام صرف ’’اقتدار میں آنے والی پارٹی‘‘ نہیں چاہتے بلکہ اقتدار میں اپنا مؤثر حصہ، نمائندگی اور آواز بھی چاہتے ہیں — ایک ایسی آواز جو ان کے مسائل کو بہادری سے اٹھا سکے۔ مجلس نے یہ احساس پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

نتیجہ اور مستقبل کی راہ

بہار میں سیکولر اتحاد کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ زمینی حقیقت کو تسلیم کرے۔ مجلس کو ’’بگاڑنے والی طاقت (Spoiler) سمجھنے کے بجائے ایک ناگزیر سیاسی قوت (Indispensable Force) کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔

سیکولر جماعتوں کے پاس دو ہی راستے ہیں
یا تو وہ اپنا ایجنڈا اور پیغام اس طرح تبدیل کریں کہ نوجوان مسلم ووٹر ایک بار پھر ان کی طرف متوجہ ہوں،
یا پھر مجلس کے ساتھ احترام اور برابری کی بنیاد پر ایک مضبوط اتحاد قائم کریں تاکہ ایک متحد، متحرک اور کامیاب محاذ تشکیل دیا جا سکے۔

مجلس کی شمولیت کے بغیر بہار میں سیکولر قوتوں کا مستقبل زوال پذیر رہے گا۔ ممکن ہے کبھی کبھار مجلس کو وقتی کمزوریوں کا سامنا ہو، مگر بہار میں اس کا سیاسی مستقبل پہلے سے کہیں زیادہ روشن اور مستحکم دکھائی دے رہا ہے۔ 

راہی ٹائمز اُردو
۷؍ نومبر ۲۰۲۵


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے